google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی

ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی

ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی

 ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی

جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی


امید تلطف میں رنجیدہ رہے دونوں

تو اور تری محفل میں اور مری تنہائی


یک جان نہ ہو سکیے انجان نہ بن سکیے

یوں ٹوٹ گئی دل میں شمشیر شناسائی


اس تن کی طرف دیکھو جو قتل گہ دل ہے

کیا رکھا ہے مقتل میں اے چشم تماشائی


فیض احمد فیض ۔۔