ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی
امید تلطف میں رنجیدہ رہے دونوں
تو اور تری محفل میں اور مری تنہائی
یک جان نہ ہو سکیے انجان نہ بن سکیے
یوں ٹوٹ گئی دل میں شمشیر شناسائی
اس تن کی طرف دیکھو جو قتل گہ دل ہے
کیا رکھا ہے مقتل میں اے چشم تماشائی
فیض احمد فیض ۔۔