رسوائیوں کا بوجھ اٹھایا نہ جائے گا
ملنے ملانے ہم سے اب آیا نہ جائے گا
ترکِ تعلقات پہ راضی نہیں ہوں میں
معلوم ہے کہ تم کو بھلایا نہ جائے گا
چہرے سے چاہے جتنا لگوں شاندار میں
دل سے خیالِ یار کا سایہ نہ جائے گا
اس طرح تیری یاد میں آنکھیں اجڑ گئیں
اب ان میں کوئی خواب سجایا نہ جائے گا
ڈرتا ہوں ہو نہ جائے عیاں سوزِ انتقام
یہ ارتعاش اور دبایا نہ جائے گا