google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw کیوں نہ اس طور سے یہ عمر گزاری جائے

کیوں نہ اس طور سے یہ عمر گزاری جائے

کیوں نہ اس طور سے یہ عمر گزاری جائے

 کیوں نہ اس طور سے یہ عمر گزاری جائے 

جیسے جیتی ہوئی بازی کوئی ہاری جائے


ہے عبث میرے مقدر سے الجھنا تیرا

یہ تری زلف نہیں ہے کہ سنواری جائے


شام دلہن کی طرح ہوتی ہے رخصت لیکن 

ہر سحر اب بھی مرے گھر سے کواری جائے


اس قدر ربط ہے اس شخص سے گہرا دل کا

چوٹ لگ جاۓ اسے ، جان ہماری جائے


سونپ دے لاکھ مشیت مجھے تقدیر مگر 

بےبسی قرض نہیں ہے کہ اتاری جائے


لوگ کہتے ہیں وہ گزرے تھے یہاں سے عابد 

کیوں نہ اس شہر میں اک شام گزاری جائے


عابد بنوی