کیوں نہ اس طور سے یہ عمر گزاری جائے
جیسے جیتی ہوئی بازی کوئی ہاری جائے
ہے عبث میرے مقدر سے الجھنا تیرا
یہ تری زلف نہیں ہے کہ سنواری جائے
شام دلہن کی طرح ہوتی ہے رخصت لیکن
ہر سحر اب بھی مرے گھر سے کواری جائے
اس قدر ربط ہے اس شخص سے گہرا دل کا
چوٹ لگ جاۓ اسے ، جان ہماری جائے
سونپ دے لاکھ مشیت مجھے تقدیر مگر
بےبسی قرض نہیں ہے کہ اتاری جائے
لوگ کہتے ہیں وہ گزرے تھے یہاں سے عابد
کیوں نہ اس شہر میں اک شام گزاری جائے
عابد بنوی