غزل منسوب اس کے نام ہو اچھا نہیں لگتا
کوئی پردہ نشیں بدنام ہو اچھا نہیں لگتا
ملاقاتوں کے جگنو آنکھ میں اچھے تو لگتے ہیں
چراغوں کی طرح انجام ہو اچھا نہیں لگتا
چلو اب شہر کی آوارگی سے باز آ جائیں
حویلی گاؤں میں نیلام ہو اچھا نہیں لگتا
مری خواہش تری آنکھوں سے بہتے اشک پی جاؤں
مری توبہ سپرد جام ہو اچھا نہیں لگتا
گلابی شبنمی شامیں بھی میرے نام لکھنا تھیں
مرے حصے میں غم کی شام ہو اچھا نہیں لگتا
سحر اندوری