اب وصل کے اصرار پہ بھی ٹیکس لگے گا
سنتے ہیں کہ دیدار پہ بھی ٹیکس لگے گا
۔
اب ٹیکس ادائوں پہ بھی دینا ہی پڑے گا
بے وجہ کے انکار پہ بھی ٹیکس لگے گا
۔
بھرجائے گا اب قومی خزانہ یہ ہے امکاں
ہر عشق کے بیمار پہ بھی ٹیکس لگے گا
۔
اب باغ کی رونق کو بڑھائے گا بھلا کون
ہر پھول پہ ہر خار پہ بھی ٹیکس لگے گا
۔
جس زلف پہ لکھتے ہیں صبح وشام سخنور
اسی زلف کی ہر تار پہ بھی ٹیکس لگے گا
دل بھر کے دیکھ لو جتنا بھی اب چاہو!
ہر رخسار کے ہر تل پہ بھی ٹیکس لگے گا
میاں دیوان کو اب اپنے سمیٹو !!
کہتے ہیں کہ اشعار پہ بھی ٹیکس لگے گا