غزل
قریب آؤ مرے ہم راز کیوں خاموش رہتے ہو
"ذرا چھیڑو بھی دل کا ساز کیوں خاموش رہتے ہو"
چلو مل کر محبت کے نئے افسانے لکھے گے
بدل کر پیار کے انداز کیوں خاموش رہتے ہو
گرا کر زلف شانوں پر غزل چھیڑو کوئی ہمدم
ملی ہے جب حسیں آواز کیوں خاموش رہتے ہو
خدا کی مہربانی سے کسی کے دل کو چھونے کا
ملا ہے دل نشیں انداز کیوں خاموش رہتے ہو
سبھی رسمیں زمانے کی بھلا کر پیار میں دونوں
اُٹھائیں گے دلوں کے ناز کیوں خاموش رہتے ہو
اجی چھوڑو یہ رنج و غم مجھے دے دو مرے ہمدم
ہنسو کھل کر مرے دم ساز کیوں خاموش رہتے ہو
یہ کیسی مصلحت بھائی ذرا کھل کر بتاؤ بھی
اٹھانی ہے جہاں آواز کیوں خاموش رہتے ہو
پلا کر جام نظروں کے حفیظ آؤ نئی رت میں
محبت کا کریں آغاز کیوں خاموش رہتے ہو
حفیظ مینا نگری