خوشی سے میرا تعارف ہوا اوائلِ غم
پھر اسکے بعد تو دنیا تھی اور مسائلِ غم
مجھے پلٹنا پڑا خواہشوں کے جنگل سے
میں خودبخود ہی ہوئے جارہا تھا مائلِ غم
میں اسکے سامنے خوشیاں اٹھا کے لے آیا
وہ دے رہا تھا مسلسل مجھے دلائلِ غم
میں اسکے کاسے کو پھولوں سے ڈھانپ دیتا ہوں
غریب خانے سے آتا ہے جب بھی سائلِ غم
کبھی کہیں کوئی ایسا جریدہ تھا شائد
گھروں سے اب تو نکلنے لگے رسائل ِ غم
سلیم اب کسی ظالم سے میں نہیں ڈرتا
غمِ حسین سے مل کر کھلے فضائلِ غم