چہرہ میرا تھا، نگاہیں اُس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اُس کی
.
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اُس کی
.
شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیز ہوئی ہُوئی سانسیں اُس کی
.
ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبحیں جب اپنی تھیں‘ شامیں اُس کی
.
دھیان میں اُس کے یہ عالم تھا کبھی
آنکھ مہتاب کی، یادیں اُس کی
.
رنگ جوئندہ وہ، آئے تو سہی
آنکھ مہتاب کی، یادیں اُس کی
.
فیصلہ موجِ ہَوا نے لکھا
آندھیاں میری ،بہاریں اُس کی
.
خُود پہ بھی کُھلتی نہ ہو جس کی نظر
جانتا کون زبانیں اُس کی
.
نیند اس سوچ سے ٹوٹی اکثر
کس طرح کٹتی ہیں راتیں اُس کی
.
دُور رہ کر بھی سدا رہتی ہیں
مُجھ کو تھامے ہُوئے باہیں اُس کی
.
پروین شاکر