google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw کتاب ڈوب گئی انقلاب ڈوب گئے

کتاب ڈوب گئی انقلاب ڈوب گئے

کتاب ڈوب گئی انقلاب ڈوب گئے

 کتاب ڈوب گئی انقلاب ڈوب گئے

زبانیں کٹ گئیں سارے خطاب ڈوب گئے


حجاب ڈوب چکے ہیں نقاب ڈوب گئے

  سراب ڈوب چکے ہیں جناب ڈوب گئے 


گناہ تیر رہے ہیں ثواب ڈوب گئے

یہ آدمی نہیں ڈوبے گلاب ڈوب گئے


شکستہ لوگ بھی جب کامیاب ڈوب گئے 

ہم آب آب ہوئے آب آب ڈوب گئے


سوال یہ ہے کہ کس نے وطن ڈبویا ہے

جواب یہ ہے کہ سارے جواب ڈوب گئے


سکون ڈوب گئے ہیں جنون ڈوب گئے

 اندھیرے چھا گئے ہیں ماہِ تاب ڈوب گئے


خدا کی مار پڑے آج کی حکومت پر

غریب ڈوب گئے ہیں گلاب ڈوب گئے


زمین ڈوب گئی آسمان ڈوب گئے

ستارے ڈوب گئے آفتاب ڈوب گئے


شکم کی آگ نے تذلیل کی ہے غربت کی

حساب تو کرو ہم بے حساب ڈوب گئے


امیرِ شہر یہ تجھ پر بھی آزمائش ہے

غریب لوگ تو اپنے عذاب ڈوب گئے


غریب دے نہ اگر ووٹ تو مرے کیوں کر

اسی گناہ سبب بے حساب ڈوب گئے 


کسی امیر کے گھر بار کیوں نہیں ڈوبے ؟

 ترے سوال کے شہرو جواب ڈوب گئے