کتاب ڈوب گئی انقلاب ڈوب گئے
زبانیں کٹ گئیں سارے خطاب ڈوب گئے
حجاب ڈوب چکے ہیں نقاب ڈوب گئے
سراب ڈوب چکے ہیں جناب ڈوب گئے
گناہ تیر رہے ہیں ثواب ڈوب گئے
یہ آدمی نہیں ڈوبے گلاب ڈوب گئے
شکستہ لوگ بھی جب کامیاب ڈوب گئے
ہم آب آب ہوئے آب آب ڈوب گئے
سوال یہ ہے کہ کس نے وطن ڈبویا ہے
جواب یہ ہے کہ سارے جواب ڈوب گئے
سکون ڈوب گئے ہیں جنون ڈوب گئے
اندھیرے چھا گئے ہیں ماہِ تاب ڈوب گئے
خدا کی مار پڑے آج کی حکومت پر
غریب ڈوب گئے ہیں گلاب ڈوب گئے
زمین ڈوب گئی آسمان ڈوب گئے
ستارے ڈوب گئے آفتاب ڈوب گئے
شکم کی آگ نے تذلیل کی ہے غربت کی
حساب تو کرو ہم بے حساب ڈوب گئے
امیرِ شہر یہ تجھ پر بھی آزمائش ہے
غریب لوگ تو اپنے عذاب ڈوب گئے
غریب دے نہ اگر ووٹ تو مرے کیوں کر
اسی گناہ سبب بے حساب ڈوب گئے
کسی امیر کے گھر بار کیوں نہیں ڈوبے ؟
ترے سوال کے شہرو جواب ڈوب گئے