زخم دبے تو پھر نیا تیر چلا دیا کرو،
دوستو اپنا لطفِ خاص یاد دلا دیا کر
شہر کرے طلب اگر تم سے علاج ِ تیرگی،
صاحبِ اختیار ہو آگ لگا دیا کرو۔
ایک علاج ِ دائمی ہے تو براۓ تشنگی،
پہلے ہی گھونٹ میں اگر زہر ملا دیا کرو۔
پیاسی زمین کو تو ایک جُرعہء خون ہے بہت،
میرا لہو نچوڑ کر پیاس بُجھا دیا کرو۔
سادہ دلوں سے دور کیا سارے عذاب بھول جائیں،
کر کے اُن کو لہو لہان پیار جتا دیا کرو۔
مقتل غم کی رونقیں ختم نہ ہونے پائیں گی،
کوئی تو آ ہی جاۓ گا روز صدا دیا کرو۔
جذبہء خاک پروری اور سکون پاۓ گا،
خاک کرو ھمیں تو پھر خاک اُڑا دیا کرو۔