google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw دیکھتا ہوں ہر مرقع میں تری تصویر کو

دیکھتا ہوں ہر مرقع میں تری تصویر کو

دیکھتا ہوں ہر مرقع میں تری تصویر کو

 آہ میں کھینچوں تو کھینچیں آپ بھی شمشیر کو

بانکپن کی نوک رکھیے کاٹیے اس تیر کو

 

اے خوشا وحدت نما کثرت کشا نے رنگ عشق

دیکھتا ہوں ہر مرقع میں تری تصویر کو


اپنے بسمل کا زرا شوق شہادت دیکھیے

دے رہا ہے کیا گلے مل مل کے دم شمشیر کو


جانتے ہو لوٹتا ہے خاک پر نخچیر کیوں

ڈھونڈتا پھرتا ہے مقتل میں تمہارے تیر کو


 

ڈال دی عشاق کی آنکھوں پہ حیرت کی نقاب

واہ کس پردے میں رکھا حُسن کی تصویر کو


گردن و پہلو سے نخچیروں کے آتی ہے صدا

آفریں اس تیغ کو صد آفریں اس تیر کو


کھینچنے بیٹھا جو نقاش ازل حیرت کی شکل

رکھ لیا پیش نظر پہلے مری تصویر کو


سینہٓ عاشق پہ جڑ دے یار تب جوہر کھلیں

چوکھٹا درکار ہے آئینہ شمشیر کو


دست و بازو کو ترے تکلیف کیوں ہووے مجھے

آپ رکھ لوں چیر کر پہلو میں تیرے تیر کو


صاف کھینچا چاہتا ہے شکل حیرانی اگر

آئینے پر کھینچ اے مانی مری تصویر کو


پیاس لاکھوں کی بجھائی واہ ری دریا دلی

پانی پی پی کر دعائیں دوں تری شمشیر کو


پوچھتے کیا ہو تجھے بے بال و پر کس نے کیا

یہ پر پرواز پر کس نے دئیے ہیں تیر کو


خود میں کھنچ جاتا ہوں زور ناتوانی دیکھنا

کھینچتا ہے جب کبھی مانی میری تصویر کو


زلف میں حلقے بنائے ہیں شرارت دیکھنا

طوق پہنائے ہیں کیا اس شوخ نے زنجیر کو


چلتے چلتے تھک گئی ہے منہ نہ موڑے خوف ہے

بسملو للہ دم لینے تو دو شمشیر کو


لب پر آئی آہ اُدھر سے جب اٹھی اس کی نظر

دیکھنا کیا تیر پر روکا ہے ہم نے تیر کو


تا یہ شاہد ہوں وہ دعوٰی خونفشانی کا کرے

لب دئیے سوفار کو بخشی زباں شمشیر کو


لوٹتا ہے خاک پر اے ترک مدت سے امیؔر

ذبح بھی کر ڈال تڑپاتا ہے کیا نخچیر کو