google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے


 تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے 

تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے


جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے 

اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے


ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب 

وہ شب ضرور سر کوئے یار گزری ہے


وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا 

وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے


نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے 

عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے


چمن پہ غارت گلچیں سے جانے کیا گزری 

قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے


فیض احمد فیض