google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے


نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے


جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی

ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے


وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا

اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے


اب شہر میں اس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جان غزل ہی نہیں

ایوان غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے


مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا

ان خالی کمروں میں ناصرؔ اب شمع جلاؤں کس کے لیے


 ناصر کاظمی