یہ جو ہم عالمٍ بیداری میں کھل جاتے ہیں

یہ جو ہم عالمٍ بیداری میں کھل جاتے ہیں

 یہ جو ہم عالمٍ بیداری میں کھل جاتے ہیں

گم شدہ لوگ ہمیں خواب میں مل جاتے ہیں


ڈھونڈنے والوں کا معیار خدا جانے مگر

شہر میں اچھے گنہگار بھی مل جاتے ہیں


آنکھ چھلکی ہے اگر تیرے بچھڑنے پہ تو کیا

زلزلے آنے سے پربت بھی تو ہل جاتے ہیں


قبریں دھرتی پہ ہیں قدرت کی کشیدہ کاری

لوگ مٹی کے اسی مٹی میں سل جاتے ہیں


چلتے پھرتے ہوئے غربت کے صحیفے اکثر

ہاتھ بٹوے میں چلا جائے تو کھل جاتے ہیں


راکب مختار