اے محبت تو محبت میں بکھر جائے گی
غم لئے دل کے زیاں کا تو کدھر جائے گی
اختلافاتِ محبت سے خفا ہیں گر وہ
مجھ سے ناراض مری شام و سحر جائے گی
بے یقیں ہوں میں نہیں مجھ کو یقیں آتا ہے
اس ستم گر پہ وفا بھی بے اثر جائے گی
بکھرے خوابوں کے الم جذب کئے پلکوں نے
بے بسی بحرِ تخیل میں اتر جائے گی
اپنے انجام پہ بیٹھا جو کہیں رونے دل
یاد آغازِ محبت کی نکھر جائے گی
ساتھ تنہائیاں رسوائیاں ہیں میرے اور
کہتے ہیں لوگ محبت بے ضرر جائے گی
اے صنم ترکِ مراسم نہیں ترکِ الفت
زندگی درمیاں یادوں کے گزر جائے گی
زاہدہ خان صنم