google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw کبھی خاموش رہتے ہیں کبھی تکرار کرتے ہیں

کبھی خاموش رہتے ہیں کبھی تکرار کرتے ہیں

کبھی خاموش رہتے ہیں کبھی تکرار کرتے ہیں

 میں جب اقرار کرتا ہوں تو وہ انکار کرتے ہیں 

کبھی خاموش رہتے ہیں کبھی تکرار کرتے ہیں 
نہ ان کی دوستی سمجھے نہ ان کی دشمنی سمجھے 
وہی مرہم لگاتے ہیں جو ہم پر وار کرتے ہیں 
خدا بننے پہ اے دل یوں بتوں کے تو خفا کیوں ہے ؟ 
کہ ایسا کام تو اکثر سبھی دلدار کرتے ہیں 
محبت ایسے لوگوں سے ہمیشہ دور رہتی ہے 
جو اپنے مان  کا سودا سرِ بازار کرتے ہیں
اسی ڈر سے کہ آنکھوں میں نہ کوئی عیب پڑ جائے
سدا ہم باوضو ہوکر ترا دیدار کرتے ہیں 
یہ سائے کس قدر بے درد ہیں اونچے مکانوں کے
کوئی کٹیا بناۓ تو اسے مسمار کرتے ہیں 
بچاۓ رب مرا ہر شخص کو ایسی بھلائی سے 
جو میرے ساتھ میرے ہمدم و غمخوار کرتے ہیں 
کوئی کانٹوں کو اپنے مانگ میں بھر دے تو میں مانوں
کہ پھولوں سے تو سب اچھے، برے ہی پیار کرتے ہیں
حقیقت میں دکاں اس طور سے اپنی بڑھاتے ہیں 
مسیحا جب پراۓ درد کا پرچار کرتے ہیں
 
مجھے ان پتھروں کی زندگی پر رشک آتا ہے 
جو پڑ کر ٹھوکروں میں راستے ہموار کرتے ہیں 
ہماری جان تو دشمن کے قبضے میں رہی لیکن 
ہمارے قتل کا دعوی ہمارے یار کرتے ہیں 
ہیں ایسے لوگ ہی احساس کے دشمن جو جذبوں کا 
بھلے انداز میں اکثر غلط اظہار کرتے ہیں 
یقیناً چال ہے یہ بھی اندھیروں کی جو آپس میں 
چراغوں کو لڑا کر مستقل  بیکار کرتے ہیں 
سمندر  ایسے لوگوں سے ہمیشہ خوف کھاتا ہے 
جو خشکی پر چلا کر اپنا بیڑہ پار کرتے ہیں 
کوئی ایسی دوا بھی ہو جو آنکھوں کو تحفظ دے 
کہ اپنے خواب ہی اکثر انہیں بیمار کرتے ہیں 
کسی کی انگلیاں حیرانگی میں اب نہیں کٹتیں
یہاں اب حسن والے عشق کو بیزار کرتے ہیں 
نجانے کون ہیں وہ لوگ جو عابد ستاروں کو 
فلک سے توڑ لاتے ہیں ، زمیں پر بار کرتے ہیں


عابدبنوی