میں جب اقرار کرتا ہوں تو وہ انکار کرتے ہیں
کبھی خاموش رہتے ہیں کبھی تکرار کرتے ہیں
نہ ان کی دوستی سمجھے نہ ان کی دشمنی سمجھے
وہی مرہم لگاتے ہیں جو ہم پر وار کرتے ہیں
خدا بننے پہ اے دل یوں بتوں کے تو خفا کیوں ہے ؟
کہ ایسا کام تو اکثر سبھی دلدار کرتے ہیں
محبت ایسے لوگوں سے ہمیشہ دور رہتی ہے
جو اپنے مان کا سودا سرِ بازار کرتے ہیں
اسی ڈر سے کہ آنکھوں میں نہ کوئی عیب پڑ جائے
سدا ہم باوضو ہوکر ترا دیدار کرتے ہیں
یہ سائے کس قدر بے درد ہیں اونچے مکانوں کے
کوئی کٹیا بناۓ تو اسے مسمار کرتے ہیں
بچاۓ رب مرا ہر شخص کو ایسی بھلائی سے
جو میرے ساتھ میرے ہمدم و غمخوار کرتے ہیں
کوئی کانٹوں کو اپنے مانگ میں بھر دے تو میں مانوں
کہ پھولوں سے تو سب اچھے، برے ہی پیار کرتے ہیں
حقیقت میں دکاں اس طور سے اپنی بڑھاتے ہیں
مسیحا جب پراۓ درد کا پرچار کرتے ہیں
مجھے ان پتھروں کی زندگی پر رشک آتا ہے
جو پڑ کر ٹھوکروں میں راستے ہموار کرتے ہیں
ہماری جان تو دشمن کے قبضے میں رہی لیکن
ہمارے قتل کا دعوی ہمارے یار کرتے ہیں
ہیں ایسے لوگ ہی احساس کے دشمن جو جذبوں کا
بھلے انداز میں اکثر غلط اظہار کرتے ہیں
یقیناً چال ہے یہ بھی اندھیروں کی جو آپس میں
چراغوں کو لڑا کر مستقل بیکار کرتے ہیں
سمندر ایسے لوگوں سے ہمیشہ خوف کھاتا ہے
جو خشکی پر چلا کر اپنا بیڑہ پار کرتے ہیں
کوئی ایسی دوا بھی ہو جو آنکھوں کو تحفظ دے
کہ اپنے خواب ہی اکثر انہیں بیمار کرتے ہیں
کسی کی انگلیاں حیرانگی میں اب نہیں کٹتیں
یہاں اب حسن والے عشق کو بیزار کرتے ہیں
نجانے کون ہیں وہ لوگ جو عابد ستاروں کو
فلک سے توڑ لاتے ہیں ، زمیں پر بار کرتے ہیں
عابدبنوی