google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw مثال دست زلیخا تپاک چاہتا ہے

مثال دست زلیخا تپاک چاہتا ہے

مثال دست زلیخا تپاک چاہتا ہے

 مثال دست زلیخا تپاک چاہتا ہے 
یہ دل بھی دامن یوسف ہے چاک چاہتا ہے 
دعائیں دو مرے قاتل کو تم کہ شہر کا شہر 
اسی کے ہاتھ سے ہونا ہلاک چاہتا ہے 
فسانہ گو بھی کرے کیا کہ ہر کوئی سر بزم 
مآل قصۂ دل دردناک چاہتا ہے 
ادھر ادھر سے کئی آ رہی ہیں آوازیں 
اور اس کا دھیان بہت انہماک چاہتا ہے 
ذرا سی گرد ہوس دل پہ لازمی ہے فرازؔ 
وہ عشق کیا ہے جو دامن کو پاک چاہتا ہے
احمد فراز