google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں

خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں

خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں

 خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں

تیری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں


ابھی تیرے لبوں پہ ذکرِ فصلِ گل نہیں آیا

مگر اِک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں


مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی

میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں


کنارہ ڈھونڈنے کی چاہ تک مجھ میں نہیں ہو گی

میں اپنے گرد اک ایسا سمندر دیکھ سکتی ہوں


خیال آتا ہے آدھی رات کو جب بھی دل میں تیرا

اُترتا ایک صحیفہ اپنے اوپر دیکھ سکتی ہوں


وصال و ہجر اب یکساں ہیں ، وہ منزل ہے الفت میں

میں آنکھیں بند کرکے تجھکو اکثر دیکھ سکتی ہوں


ابھی تیرے سوا دنیا بھی ہے موجود اس دل میں

میں خود کو کسطرح تیرے برابر دیکھ سکتی ہوں.


پروین شاکر