google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw تیری چاہت میں کمی کیسے گوارا کر لیں

تیری چاہت میں کمی کیسے گوارا کر لیں

تیری چاہت میں کمی کیسے گوارا کر لیں

 تیری چاہت میں کمی کیسے گوارا کر لیں

عشق روزی تو نہیں ہے کہ گزارا کر لیں


منفعت چاہے تو الفت کو تجارت نہ بنا

جانتے بوجھتے ہم کیسے خسارا کر لیں


تو ہواؤں کے جھپٹے میں نہ آیا ہو کہیں

دو گھڑی ٹھہر جا تیرا بھی اتارا کر لیں


تیرے وعدوں پہ یقیں ہو تو اسی آس سے ہم

جسم کو راکھ کریں روح کو پارہ کر لیں


غیر سے بھی وہ مخاطب ہیں تو امید سی ہے

بات ہم سے نہ سہی ذکر ہمارا کر لیں


کیسے برداشت کریں غیر کی تجھ پر تنقید

خود بھی شاکی ہوں تو خود سے بھی کنارا کر لیں


ہم سے غافل نہیں رہتے کبھی طوفاں کہ کہیں

ڈوبتے ڈوبتے تنکے کو سہارا کر لیں


ہوئی متروک وفا عام ہوئی بو الہوسی

عقل کہتی ہے کہ ہم بھی کوئی چارہ کر لیں