شفق کی جھیل میں جب سنگِ آفتاب گرے
ہمارے گھر پہ سیہ رات کا عذاب گرے
کہیں تو گردشِ ایام تھک کے سانس بھی لے
کبھی تو خیمہء افلاک کی طناب گرے
کواڑ بند رکھو برق ڈھونڈتی ہے تمہیں
کسے خبر کہ کہاں خانماں خراب گرے؟
سرشکِ درد کھلا اس کے پیرہن پہ بہت
زمیں کی گود میں جیسے کوئی گلاب گرے
کھلی ہیں جھیل سی آنکھیں نہ جُوۓ درد چلی
افق سے کٹ کے کہاں عکسِ ماہتاب گرے؟
کہیں تو سلسلہء انتظار ختم بھی ہو
کسی طرح تو یہ دیوارِ اضطراب گرے
کسی کے رائیگاں اشکوں کا کچھ حساب تو کر
فلک سے یوں تو ستارے بھی بے حساب گرے
غزل کے روپ میں وہ روبرو جو ہو محسن
لبوں سے لفظ اڑیں، ہاتھ سے کتاب گرے
محسن نقوی