google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw میں اُس کا انتخاب بڑی دیر تک رہا

میں اُس کا انتخاب بڑی دیر تک رہا

میں اُس کا انتخاب بڑی دیر تک رہا

 وہ مجھ کو دستیاب بڑی دیر تک رہا

میں اُس کا انتخاب بڑی دیر تک رہا


دیکھا تھا اس نے مڑ کے مجھے اک نظر تو پھر

آنکھوں میں اضطراب بڑی دیر تک رہا


خوشبو مُقید ہو گئی لفظوں کے جال میں

کسی خط  میں اک گلاب بڑی دیر تک رہا


چہرے پہ اُتر آئی تھی تعبیر کی تھَکن

پلکوں پہ ایک خواب بڑی دیر تک رہا


پہلے پہل تو عشق کے آداب یہ بھی تھے

میں " آپ " وہ " جناب " بڑی دیر تک رہا


اک بار اُس نے مجھ کو پکارا تھا اور بس

ہوا میں وہ رباب بڑی دیر تک رہا


صبح تلک اُس چھت پہ ستارے مقیم تھے

کھڑکی میں اک ماہتاب بڑی دیر تک رہا


اُس کے سوال پر سبھی الفاظ مر گئے

اشکوں میں پھر جواب بڑی دیر تک رہا


گن گن کے اُس نے جب مجھے احسان جتائے

پوروں پہ پھر حساب بڑی دیر تک رہا


اک عمر تک میں اس کو بڑا قیمتی لگا

وہ بھی مجھے نایاب بڑی دیر تک رہا


۔ راحت اندوری