google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw وہ شرمگیں سی غلاف آنکھیں دلوں میں کھلتی گلاب آنکھیں

وہ شرمگیں سی غلاف آنکھیں دلوں میں کھلتی گلاب آنکھیں

 

وہ شرمگیں سی غلاف آنکھیں دلوں میں کھلتی گلاب آنکھیں

وہ شرمگیں سی غلاف آنکھیں دلوں میں کھلتی گلاب آنکھیں 

حیا کے پردوں میں جھکتی اٹھتیں وہ زعفرانی شراب انکھیں 


لگادو اب میکدوں کو تالے نہیں طلب اب ہم کو مے کی 

کہ اسماں سے اتررہی ہیں ،  رفتہ رفتہ شراب آنکھیں  


وہ ماہ رُو یے میرے مقابل ملاؤں نظریں چراؤں آنکھیں 

کہ چپکے چپکے سے کررہی ہیں اس حسیں کا طواف آنکھیں

 
سحر زدہ ہیں اس کی آنکھیں کہ جو بھی دیکھے لگے ٹھکانے
 
محبتوں کے سمندروں میں ڈوبی ڈوبی سراب آنکھیں


میرے عزیزوں مجھے بتاٶ کیا تم نے ایسا حسیں ہے دیکھا
 
کہ ہونٹ عنبر، گلابی عارض ، ہیں ارغوانی گلاب آنکھیں  


میرے نگر کی حسیں فضاؤں کہیں سے ان کا سراغ لاؤ 

کہاں چھپی ہیں وہ سو، سوالوں کا ایک ہی بس جواب آنکھیں


عقیل احمد وارثی

read more

ابھی تکلف ہے گفتگو میں، ابھی محبت نئی نئی ہے

our

یہی وعدہ لیا تھا نا۔۔