سرد جذبوں میں حرارت جو دبی رہتی ہے
کوئی امید سدا دل کو لگی رہتی ہے
رو کے ہنسنا نہیں آساں کہ کئی روز تلک
بعد بارش کے فضاؤں میں نمی رہتی ہے
جن کو اپنا بھی جنوں راس نہ آئے آخر
ان کے جذبات میں کس شے کی کمی رہتی ہے
نقص تدبیر میں پڑتا ہے ہمیشہ ورنہ
حسنِ تقدیر سے ہر بات بنی رہتی ہے
اب تو یہ حال ہے وہ پیشِ نظر ہو تو بھی
آنکھ اس بت کے تصور پہ جمی رہتی ہے
مان قائم ہو تو رشتے نہیں ٹوٹا کرتے
سخت باندھی ہوئی رسّی ہی تنی رہتی ہے
یہ حقیقت ہے مکاں جتنا بڑا ہو یارو
اس کی ہر چیز ہمیشہ ہی بڑی رہتی ہے
آ کسی کام میں آنکھوں کو لگا لیں عابد
ان کو بے کار میں خوابوں کی پڑی رہتی ہے
عابد بنوی
read more
مجھ سےاوقات میرے عشق کی نہ پوچھ
ou