google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

 

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے 

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں 

گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی 

یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے 

تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی 

عجب نہ تھا کہ میں بیگانۂ الم ہو کر 

ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا 

ترا گداز بدن تیری نیم باز آنکھیں 

انہی حسین فسانوں میں محو ہو رہتا 

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی 

ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا 

حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں 

گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا 

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے 

کہ تو نہیں ترا غم تیری جستجو بھی نہیں 

گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے 

اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں 

زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے 

گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے 

مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں 

حیات و موت کے پر ہول خارزاروں سے 

نہ کوئی جادۂ منزل نہ روشنی کا سراغ 

بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری 

انہی خلاؤں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر 

میں جانتا ہوں مری ہم نفس مگر یوں ہی 

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

ساحر لدھیانوی

read more

کوئی جگنو کوئی دیپک کرن ہو یا ستارہ ہو

our