جھٹک کے زُلفیں اندھیرے کو ٹال دیتی ہے
گلاب زادی ! سحر کو اُجال دیتی ہے
میں تیرے لمس کو لفظوں میں کس طرح لاوں
تُو ہاتھ چھوتی نہیں جاں نکال دیتی ہے
کچھ اِس ادا سے گُھماتی ہے شربتی آنکھیں
تُو کائنات کو مُشکل میں ڈال دیتی ہے
گُلاب زادی، تِرا شکریہ کہ تیری ہنسی
مِرے غریب کے فن کو کمال دیتی ہے
گلاب، تتلی سے اِس بات پر اُلجھتے ہیں
وہ بات بات پہ تیری مثال دیتی ہے
گلاب و موتیا، چمپا و یاسمیں کی مجال
تُو قہقہے میں وہ خُوشبو اُچھال دیتی ہے
تِرے خیال کی وسعت کی چاندنی کی قسم
تُو میری شام کو صُبح کا خیال دیتی ہے
read more
ﺑﮩﺖ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﮯ ﮐَﮩﻨﺎ،
our