google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے

حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے

حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے



 حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے

اس سے میرا مۂ خورشید جمال اچّھا ہے
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے
دیکھیے پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض

اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے
ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا

جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچّھا ہے
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے

کام اچّھا ہے وہ جس کا کہ میٰل اچّھا ہے
خضر سلطاں کو رکھے خالقِ اکبر سر سبز

شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچّھا ہے
ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن

دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے


مرزا غالب

read more

جب نگاہ یار دے جاتی ہے،پیمانے کا کام

our