دیوار نہیں در نہیں سایہ بھی نہیں ہے
اس پر وہ گیا، لوٹ کے آیا بھی نہیں ہے
تا عمر تعاقب میں رہی ایک محبت
کھویا بھی نہیں اس کو تو پایا بھی نہیں ہے
بیٹھے ہیں پریشان، گنوایا اسے کیسے
رستے میں کوئی موڑ تو آیا بھی نہیں ہے
ہم نے ہی بنا رکھے ہیں افسانے ہزاروں
اس نے تو کبھی ہنس کے بلایا بھی نہیں ہے
اک شخص نے چھوڑا ہے نگر جب سے یہ دل کا
اپنا تو یہاں کیا ہو ، پرایا بھی نہیں ہے
آئینے خفا ہم سے ہے کیوں شہر ہمارا
ہم نے تو ابھی دیکھا، دکھایا بھی نہیں ہے
تاوان جو مانگے ہے رہائی کے عوض تو
اتنا تو مری زیست کمایا بھی نہیں ہے
اتباف ابرک
read more
ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں
our