اس سے بڑھ کر کوئی کیا دے گا محبت کا ثبوت
میں نے جانے کا سبب تک نہیں پوچھا اس سے
باتوں باتوں میں جو میں بات بدل دیتا ہوں
یہ قرینہ یہ ہنر بھی مجھے آیا اس سے
اس سے مل کر ہی ہوئی خود سے شناسائی مری
اپنے بارے بھی اگر جانا تو جانا اس سے
اس کے ہونے سے کہانی ہوئی پوری میری
یار! روشن ہے مری آنکھ کا صحرا اس سے
جانے کیوں مجھ سے لپٹتی ہیں یہ غم کی شاخیں
جانے کیا کہتا ہے بہتا ہوا دریا اس سے
مجھ کو اس جیسا نہیں کوئی ملا آج تلک
اور تم بات یہ کرتے ہو کہ "اچھا" اس سے یہ محبت کے تقاضوں میں تقاضہ ہے میاں
چلو رسماً سہی کر لیں کوئی وعدہ اس سے
اس کی آنکھیں ہیں مجھے راس کچھ ایسی آئیں
خود ہی پوچھا نہیں دل کا کبھی رستہ اس سے
اس کے جانے سے ہوئے بند کئی در مجھ پر
میری آنکھوں کو تھا خوابوں سے علاقہ اس سے
read more