ناز و تیور سنگھار اس کا ہے
آئینے پر خمار اس کا ہے
یوں تو میرا ہی دل ہے میرا دل
دل کو دھڑکا یہ پیار اس کا ہے
جس کے چہرے پہ زلف ہے تیری
اور کس کا قرار اس کا ہے
یہ جو کھل اٹھتی ہیں مری آنکھیں
موسمِ دل بہار اس کا ہے
جس نے خیبر کو فتح کر ڈالا
میرے دل پر بھی وار اس کا ہے
اس کے ابرو کمان قاتل کی
ہاے یہ دل شکار اس کا ہے
جس نے جینا سکھایا ہے مجھ کو
میرا سینہ مزار اس کا ہے
میرا معیار ظرف ہے سو ہے
اس کا لہجہ وچار اس کا ہے
کل جسے پیار نے قرار دیا
آج دل بے قرار اس کا ہے
آنکھ وہ ہی جو موج میں ہوگی
یہ سمندر سوار اس کا ہے
دیکھ کے لوگ مجھ کو، کہتے ہیں
ہے تو شہرو پہ یار اس کا ہے
read more
کچھ بات ہے کہ خیال یار آیا
our