اپنے نصیب کا تو ستارہ نہیں ملا
یعنی ہمیں وہ دوست ہمارا نہیں ملا
ڈوبے ہیں کس طرح یہ کہانی نہ پوچھیے
کشتی تو مل گئی تھی کنارا نہیں ملا
آنا تو تھا ہمیں بھی تری بزم میں مگر
ہلکا سا بھی تو کوئی اشارہ نہیں ملا
آنکھیں کھلیں تو عمر کی نقدی تمام شد
ہم زعم میں رہے کہ خسارہ نہیں ملا
اپنی تباہیوں کا ہمیں خود ہی شوق تھا
ایسا نہیں کہ کوئی سہارا نہیں ملا
ہم کو ملا ہے درد بھی ہر بار مختلف
اک بار جو ملا وہ دوبارہ نہیں ملا
فرزانہ ساجد
read more
aina dekh apna sa munh le ke rah gaya
our