دردِ دل شب کی سیاہی میں بہانا ہی سہی
روشنی والوں سے زخمِ دل چھپانا ہی سہی
پاس آتے بھی نہیں اور دور جاتے بھی نہیں مجھ کو تیری جستجو کا آزمانا ہی سہی
چاہ تجھ کو گر نہیں مجھ سے نبھانے کی رہی
عہدِ ترکِ ربط سے تیرا نبھانا ہی سہی
حسبِ منشا زندگی ملتی کہاں جینے کبھی
خواہشِ دل اپنوں کی خاطر مٹانا ہی سہی
ضبط سے سیکھا ہے اشکوں کو چھپانے کا ہنر
درد کے احساس کو عیاں نہ کرنا ہی سہی
اشک بے قیمت نہیں معبود تیرے سامنے
دامنِ دل میرا سجدوں میں بھگونا ہی سہی
مرہمی لہجے صنم کر دیں گے گہرے زخمِ دل
درد اپنا اک تبسم میں چھپانا ہی سہی
زاہدہ خان صنم
read more
دل کے معاملات میں سود و زیاں کی بات
our