google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے

تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے

تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے




تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے 

تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے 

کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے 

تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے 

تو بھی کچھ اور اور ہے ہم بھی کچھ اور اور ہیں 

جانے وہ تو کدھر گیا جانے وہ ہم کدھر گئے 

راہوں میں ہی ملے تھے ہم راہیں نصیب بن گئیں 

وہ بھی نہ اپنے گھر گیا ہم بھی نہ اپنے گھر گئے 

وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا 

دل میں ترے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے 

ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا 

صحرا امڈ امڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے 

وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے 

وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے 

کوئی کنار آب جو بیٹھا ہوا ہے سرنگوں 

کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے 

آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا 

ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے 

بارش وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا 

وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے 

آب محیط عشق کا بحر عجیب بحر ہے 

تیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے 

اتنے قریب ہو گئے اپنے رقیب ہو گئے 

وہ بھی عدیمؔ ڈر گیا ہم بھی عدیمؔ ڈر گئے 

اس کے سلوک پر عدیمؔ اپنی حیات و موت ہے 

وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ نہ ملا تو مر گئے


 عدیم ہاشم

read more

میرے دل کے سبھی موسم اسی پہ جا کے کھلتے تھے

our