google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ، ترے جاں نثار چلے گئے
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ، ترے جاں نثار چلے گئے
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ، ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب ،، سرِ رہگزار چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے ، شبِ انتظار چلی گئی
مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر ــ مرے غم گسار چلے گئے
نہ سوالِ وصل ، نہ عرضِ غم ، نہ حکایتیں ، نہ شکایتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے ، سبھی اختیار چلے گئے
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم ، سرِ بزمِ یار چلے گئے
نہ رہا جنونِ رُخِ وفا ، یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا ، وہ گناہ گار چلے گئے
شاعر ”فیض احمد فیضؔ
semore