ھوا جو صحن گلستاں میں،راج کانٹونکا
صبا بھی پوچھنے ائی،مزاج کانٹونکا
کہو رو زخم رگ گل،کا تذکرہ چھیڑیں
کہ زیر بحث ہے کردار،آج کانٹون کا
ہم اپنے چاک قبا کو،رفو تو کر لیتے
مگر وہی ہے ابھی تک،مزاج کانٹونکا
چمن سے اٹھ گئی،رسم بہار ہی شائد
کہ دل پر بار نہیں ہے،رواج کانٹون کا
در قفس پہ،اسی کے گلے کا،ھار تھے پھول
جسے ملا یے گلستاں سے تاج،کانٹونکا
لگی ہے مہر خراشوں کی،دیدہ و دل ہر
سحر اب کوئی کرے کیا علاج،کانٹونکا۔۔۔۔سحر