ہزاروں خواہشیں بیدار کرنے آتی ہے

ہزاروں خواہشیں بیدار کرنے آتی ہے



ہزاروں خواہشیں بیدار کرنے آتی ہے

جوانی زیست کو گلزار کرنے آتی ہے


چمن میں کانٹوں نے مالی سے یہ شکایت کی

بہار بس ہمیں بیزار کرنے آتی ہے


نہ اس حیا پہ لٹاؤں میں زندگی کیوں کر

جو سُرخ یار کے رخسار کرنے آتی ہے


یہ چاند تاروں کی بارات شام ڈھلتے ہی

سُہانی رات کا سنگار کرنے آتی ہے 


یوں بن سنور کے مرے سامنے چہکتے ہوۓ

"تُو جب بھی آتی ہے بیمار کرنے آتی ہے"


بزرگ کہتے ہیں، مشکل ، ہمارے سینوں میں

خدا کی یاد کو بیدار کرنے آتی ہے


مزار و مندر و میلوں میں ہر جواں لڑکی

جواں دلوں کو گرفتار کرنے آتی ہے 


اگر یقین ہو دل میں تو رہ اندھیروں کی

ہماری سوچ کو ضوبار کرنے آتی ہے


حفیظ شوخ نگاہوں کے جام بھر بھر کے

گھٹا زمین کو سرشار کرنے آتی ہے


حفیظ مینا نگری