غزل
حسین ثاقب
طاقت کا یہ سوال نہیں حوصلوں کا تھا
لیکن بہم جو ساتھ تھا وہ بُزدلوں کا تھا
صد شکر سر پہ سایہ ترے آنچلوں کا تھا
ورنہ کڑی تھی دھوپ سفر دلدلوں کا تھا
میں تیز گام ہو کے بھی گر راستے میں ہوں
اس میں قصور میرا نہیں منزلوں کا تھا
آنکھوں میں شرم تھی سو تری نسبتوں کی تھی
حلقہ بگوش میں کہ ترے سلسلوں کا تھا
قاضی نے جس پہ مہرِ عدالت لگائی آج
وہ فیصلہ بھی لکھا ہوا قاتلوں کا تھا
اے ناخدائے قوم! تجھے کیا خبر کہ تُو
طوفاں کا تھا شکار یا پھر ساحلوں کا تھا
بادل برس گئے تو یہ دُھند آپ چھٹ گئی
آنکھوں میں بھی غبار انہی بادلوں کا تھا
اس کی زباں پہ خوف ہو کیوں شہرِیار کا
جو شخص خُوگرفتہ تری محفلوں کا تھا