سرمایہ ء حیات سے ہم آب آب ہیں
پھر بھی ہماری جاگتی آنکھوں میں خواب ہیں
خواہش کی منزلوں پہ سفر ہے حیات کا
اور زیست کے تمام ہی رستے خراب ہیں
سر آسماں سے اونچا ہوا ہے زمین کا
اہل زمیں کے پاس بھی کچھ ماہتاب ہیں
“کیا ”چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات
جو حسنِ خاک مست ہیں سارے سراب ہیں
تقدیر کی عطا سے مجھے مل رہے ہیں دکھ
لیکن حیات کم ہے یہ دکھ بے حساب ہیں
فقیر عثمانی