لکھتی ہوں میں یزید کو ناکامِ کربلا
دل کی نگاہ میں ہے مرے شامِ کربلا
ہر سو دکھائی دینے لگی شامِ کربلا
منظر میں ہیں کھڑے ابھی ایامِ کربلا
خونِ حسین سے بھرا ہے جامِ کربلا
اسلام کی ہے زندگی پیغامِ کربلا
کٹ کر بلند ہوتا ہے سر ہے حسین کا
نام و نشاں یزید فقط خامِ کربلا
تا حشر تیری پیاس پہ رحمت خدا کی ہے
صدقے تمہاری پیاس کے گلفامِ کربلا
لعنت یزید و شمر پہ لعنت برستی ہے
آیا مگر فراٰت پہ الزامِ کربلا
بدتر ہیں جانور سے وہ انسان ہی نہیں
جن کے شعور میں نہیں پیغامِ کربلا
ساقی مرے شعور کا واللہ حسین ہے
ہوتا ہے میرے دل کو بھی الہامِ کربلا
شہرِ حُسن