جیسے بھرتا ہے زمانہ آج دم شبیر کا
" حشر تک لہرائے گا یونہی علم شبیر کا "
کربلا کی مشکلوں کا سامنا کیسے کیا
نقش ہے دل پر ہمارے ہر قدم شبیر کا
درس دیتا ہے شجاعت کا ہمیشہ مومنو !
ظالموں کی گردنیں کرنا قلم شبیر کا
آپ کے سر جیت کا سہرا بندھا سنسار میں
رکھ لیا اللہ نے دیکھو بھرم شبیر کا
غم ہمیں بھی ہے محمد کے نواسے کا بہت
ہاں مگر ماتم نہیں کرتے ہیں ہم شبیر کا
مٹ گیا خود ہی نسب اُن کا مٹانے میں یزید
بڑھ گیا کچھ اور بھی جاہ و حشم شبیر کا
سر کٹا کر جو کیا ہے پوری اُمت پر حفیظ
یاد رکھا جائے گا رحم و کرم شبیر کا
حفیظ مینا نگری