google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw کبھی موم بن کر پگھل گیا

کبھی موم بن کر پگھل گیا

کبھی موم بن کر پگھل گیا

 کبھی موم بن کر پگھل گیا

کبھی گرتے گرتے سنبھل گیا


وہ بن کے لمحہ گریز کا

میرے پاس سے یوں نکل گیا


اُسے روکتا بھی تو کس طرح

کہ وہ شخص اتنا عجیب تھا 


کبھی تڑپ اٹھا میری آہ  سے 

کبھی اشک سے نہ پگھل سکا


سر راہ ملا وہ اگر کبھی

تو نظر چرا کے  گزر گیا


وہ اُتر گیا میری آنکھ سے

میرے دل سے وہ کیوں نہ اتر سکا


وہ چلا گیا جہاں چھوڑ کے

میں وہاں سے پھر نہ پلٹ سکا


وہ سنبھل گیا  مگر آج تک

میں بکھر کے پھر نہ سمٹ سکا 


محسن نقوی