تجھ سے کچھ رنگ چرا لوں تیرے جیسا ہو جاؤں چھو کے تجھ کو میں بادِ صبا ہو جاؤں دے کے تجھ کو میں تھوڑا عشق ادھار تیری تکمیل کروں، تجھ پہ فدا ہو جاؤں زندگی چاک پہ کرتی رہے رقص اور میں تیرے ہاتھوں میں مٹی کا کھلونا ہو جاؤں تیری صحبت مجھے مسرور بہت رکھتی ہے تجھ سے بچھڑوں تو میری جان ادھورا ہو جاؤں غمِ دوراں میں گزاروں تیری آنکھوں میں غمِ ہجراں میں تیرے ہاتھوں کی دعا ہو جاؤں ہو جو برسات تو آنکھوں میں چھپا لوں تجھے کو دھوپ نکلے تو تیرے سر پہ میں سایہ ہو جاؤں میں جنوں پیشہ جو دانائی کے ہمراہ چلوں حق سے پھر جاوں پل بھر میں اندھا ہو جاؤں اک لمحہ تو میرے دل کی خوشی بن کے چمک تا زیست میں تیرے غم کا مداوا ہو جاؤں میکدہ ہو، در کعبہ ہو کہ بت خانہ سب سے منہ موڑ لوں اور بس تیرا شیدا ہو جاؤں راہِ عشق میں فقط لیلی کا ہی سنگ چاہوں یہ الگ بات کہ اب تجھ پہ فدا ہو جاؤں کئی دن سے یہی حسرت لئے بیٹھا ہے ظفرؔ اپنی ہستی کو مٹا دوں تیرا حصہ ہو جاؤں ..