google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے​

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے​

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے​

 چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے​
پہ کیا کریں ہمیں‌ ڈوبنے کی عادت ہے​

تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع​
میں آئینہ ہوں‌مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے​

میں کیا کہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا​
میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے​

تیرے نصیب میں اے دل ! سدا کی محرومی​
نہ وہ سخی، نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے​

وصال میں‌ بھی وہی ہے فراق کا عالم​
کہ اسکو نیند مجھے رت جگے کی عادت ہے​

یہ مشکلیں تو پھر کیسے راستے طے ہوں​
میں ناصبور اسے سوچنے کی عادت ہے​

یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے​
نہ یاد کر کہ جسے بھولنے کی عادت ہے