آنکھوں میں آنسووں کی،ایسی لگی،جھڑی تھی
شام فراق یار،میرے سامنے کھڑیی تھی
مین نے تیرے ہی نام کردی،جتنی بھی زندگی تھی
مجھ کو اے دوست تیری ضرورت،ھر گھڑی تھی
نکھیں تھی جھیل جیسی،لب تھے کہ پنکھڑی تھی
اسکی ہر ایک راہ میں جادہ تھآ،دلبری تھی
بچھڑا کہاں تھا مجھ سے،اب کخھ یاد نہیں
یارو پتہ تو کچھ دو،وہ کون سی گلی تھی
اشکوں سے بھی تو سحر،شائد بجھ نہ پائے وہ
کیسی یہ آگ اب دل میں میری لگی ہے۔۔۔سحر