پہنچی ہے کس طرح مرے لب تک ، نہیں پتہ
وہ بات جس کا خود مجھے اب تک نہیں پتہ
اک دن اداسیوں کی دوا ڈھونڈ لیں گے لوگ
ہم لوگ ہوں گے یا نہیں تب تک ، نہیں پتہ!
کب سے ہے ، کس قدر ہے ، یہ کیسے پتہ چلے ؟
مجھ کو تو اس جنوں کا سبب تک نہیں پتہ
جس کے سبب میں اہلِ محبت کے ساتھ ہوں
وہ شخص میرے ساتھ ہے کب تک ، نہیں پتہ
میں آج کامیاب ہوں ، خوش باش ہوں ، مگر
کیا فائدہ ہے یار ! اسے جب تک نہیں پتہ
ہم کیا خوشی ، غمی کی محافل میں ہوں شریک
ہم کو تو فرقِ رنج و طرب تک نہیں پتہ
عمیر نجمی
read more
میں اُس کا انتخاب بڑی دیر تک رہا
our