google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw پہنچی ہے کس طرح مرے لب تک ، نہیں پتہ

پہنچی ہے کس طرح مرے لب تک ، نہیں پتہ

پہنچی ہے کس طرح مرے لب تک ، نہیں پتہ

 

پہنچی ہے کس طرح مرے لب تک ، نہیں پتہ

وہ بات جس کا خود مجھے اب تک نہیں پتہ

اک دن اداسیوں کی دوا ڈھونڈ لیں گے لوگ

ہم لوگ ہوں گے یا نہیں تب تک ، نہیں پتہ!

کب سے ہے ، کس قدر ہے ، یہ کیسے پتہ چلے ؟

مجھ کو تو اس جنوں کا سبب تک نہیں پتہ

جس کے سبب میں اہلِ محبت کے ساتھ ہوں

وہ شخص میرے ساتھ ہے کب تک ، نہیں پتہ

میں آج کامیاب ہوں ، خوش باش ہوں ، مگر

کیا فائدہ ہے یار ! اسے جب تک نہیں پتہ

ہم کیا خوشی ، غمی کی محافل میں ہوں شریک

ہم کو تو فرقِ رنج و طرب تک نہیں پتہ

عمیر نجمی

read more

میں اُس کا انتخاب بڑی دیر تک رہا

our