google-site-verification=1cDsmHCmXJben2iPuLhkG29LoKl9irWX4R1j9rOP9vw سحر نے اندھی گلی کی طرف نہیں دیکھا

سحر نے اندھی گلی کی طرف نہیں دیکھا

سحر نے اندھی گلی کی طرف نہیں دیکھا


 سحر نے اندھی گلی کی طرف نہیں دیکھا


جسے طلب تھی اسی کی طرف نہیں دیکھا


قلق تھا سب کو سمندر کی بے قراری کا


کسی نے مڑ کے ندی کی طرف نہیں دیکھا


کچوکے دیتی رہیں غربتیں مجھے لیکن


مری انا نے کسی کی طرف نہیں دیکھا

سفر کے بیچ یہ کیسا بدل گیا موسم


کہ پھر کسی نے کسی کی طرف نہیں دیکھا

تمام عمر گزاری خیال میں جس کے


تمام عمر اسی کی طرف نہیں دیکھا


یزیدیت کا اندھیرا تھا سارے کوفے میں


کسی نے سبط بنی کی طرف نہیں دیکھا


جو آئنے سے ملا آئنے پہ جھنجھلایا


کسی نے اپنی کمی کی طرف نہیں دیکھا


مزاج عید بھی سمجھا تجھے بھی پہچانا


بس ایک اپنے ہی جی کی طرف نہیں دیکھا


منظر بھوپالی

semore